چین اور روس کے تعلقات اعلیٰ ترین مقام پر ہیں.روسی صدر
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے اتحاد کی مضبوطی کو سراہا ہے جہاں چینی رہنما بین الاقوامی طور پر تنہائی کا شکار روسی صدر سے ملاقات کے لیے ماسکو روانہ ہوئے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے دورے کو ’دوستی، تعاون اور امن کا سفر‘ قرار دیا ہے اگرچہ چین کو مغربی ممالک کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کو وہ یوکرین میں روس کی جنگ کے لیے خفیہ پشت پناہی اور سفارتی احاطہ سمجھتے ہیں۔
صدر شی جن پنگ نے اخبار روسی گزٹ میں ایک دستخط شدہ مضمون میں لکھا کہ صدر پیوٹن کے ساتھ تعلقات کے لیے مشترکہ طور پر ایک نیا مؤقف اپنانے کے لیے کام کرنے کا منتظر ہوں۔
چین نے یوکرین جنگ میں خود کو غیرجانبدار پیش کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ گزشتہ ہفتے چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ چین، روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات کے لیے تعمیری کردار ادا کرے گا۔
روسی صدر نے یوکرین کے بارے میں چین کے اقدام کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا کہ چین اور روس کے تعلقات اعلیٰ ترین مقام پر ہیں۔
چینی صدر کا دورہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے یوکرینی بچوں کو غیر قانونی طور پر ملک بدر کرنے کے جنگی جرم کے الزام میں روسی صدر کے لیے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جانے کے چند دن بعد ہوا ہے۔
چین نے کہا کہ آئی سی سی کو دوہرے معیار اور سیاست سے گریز کرنا چاہیے اور سربراہان مملکت کے استثنیٰ کا احترام کرنا چاہیے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بریفنگ میں بتایا کہ عالمی عدالت کو ایک معروضی اور غیر جانبدارانہ موقف کو برقرار رکھنا چاہیے اور بین الاقوامی قانون کے تحت سربراہانِ مملکت کے استثنیٰ کا احترام کرنا چاہیے۔
ترجمان نے کہا کہ یوکرین تنازعہ کا حل مذاکرات اور بات چیت میں ہے۔ چینی صدر نے روسی صدر کو اپنا دیرینہ دوست قرار دیا۔
روس اور چین حالیہ کچھ برسوں میں سفارتی محاذ پر ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔
روس اور یوکرین میں جنگ کا تنازعہ ختم کرنے کے لیے غیرجانبدارانہ ثالثی کردار ادا کرنے کے بجائے روس کے خلاف مہم چلانے کی مذمت کی ہے۔
چین نے فروری میں 12 نکاتی پوزیشن پیپر جاری کیا تھا جس میں تمام ممالک کی علاقائی خودمختاری کے لیے بات چیت اور احترام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
چینی صدر نے روسی میڈیا کے آرٹیکل میں لکھا کہ کسی بھی ایک ملک کو عالمی آرڈر پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین نے مسئلہ کی خوبیوں کی بنیاد پر ایک بامقصد اور غیر جانبدارانہ موقف کو برقرار رکھا ہے اور امن مذاکرات کو فعال طور پر فروغ دیا ہے۔
چین کے اس مؤقف پر اس کو مغربی ممالک کی تنقید کا سامنا ہے جو کہتے ہیں کہ چین ماسکو کی جنگ میں سفارتی محاذ فراہم کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی تجاویز بڑے اصولوں پر بھاری ہیں لیکن عملی طور پر ہلکی ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ اس وقت ہم جنگ بندی کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتے۔