لاہور ہائیکورٹ کا بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ پر وفاقی حکومت سے جواب طلب
لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے لوڈشیڈنگ اور مہنگائی سے متعلق 2 علیحدہ علیحدہ درخواستوں پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
جوڈیشل ایکٹوزم پینل نے لوڈشیڈنگ اور مہنگائی سے متعلق 2 درخواستیں دائر کیں جس پر جسٹس شاہد کریم نے آج سماعت کی۔
مذکورہ درخواستیں ایسے وقت میں دائر کی گئی ہیں جب ملک بھر میں توانائی کا شارٹ فال 7 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کرنے کی اطلاعات ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی نے وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ منگل تک لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ساڑھے 3 گھنٹے تک رہ جائے گا۔
سابق وزیر پیٹرولیم نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ 16 جون تک دورانیہ مزید کم کر کے 3 گھنٹے سے کم رہ جائے گا، 30 جون تک یہ 2 گھنٹے سے بھی کم ہو جائے گا۔
سماعت کے دوران جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ کہا جا رہا ہے توانائی بحران جولائی تک ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ آپ کی ساری درخواستیں میرے پاس کیوں لگتی ہیں؟ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ عوامی مفاد کا کیس ہے، میں کیا کہہ سکتا ہوں؟
انہوں نے مزید کہا کہ آج اٹھائے گئے معاملات سے متعلق عدالتی فیصلے موجود ہیں، کسی نہ کسی طرح ان چیزوں کو ٹھیک ہونا چاہیے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایسے معاملات پر فیصلے جاری نہ کیے جائیں، اس پر وکیل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت سے مہنگائی پر پوچھ لیں کہ کرنا کیا ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے مشاہدہ کیا کہ یہ مہنگائی پوری دنیا میں ہے، خوراک کا بحران سر اٹھا رہا ہے، اس سب کے دوران کیا کیا جاسکتا ہے؟
وکیل نے جسٹس شاہد کریم کی توجہ اسموگ سے متعلق ایک سابقہ کیس کی جانب مبذول کرائی اور کہا کہ جج نے ماحولیاتی مسئلے سے متعلق کئی چیزوں کو اجاگر کیا، یہ کام بھی ساتھ ساتھ ہو جائے تو اچھا ہے۔
بعد ازاں فاضل جج نے وفاقی حکومت سے بجلی کی کٹوتی اور پنجاب حکومت سے مہنگائی پر جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کیلئے حکومتی اقدامات
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ مزید بڑھ گیا ہے، شہریوں کو روزانہ 6 سے 8 گھنٹے تک بجلی کی بندش کا سامنا ہے۔
گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف نے لوڈشیڈنگ پر غور کرنے کے لیے اجلاس کی صدارت کی تھی اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کے لیے ’ایمرجنسی پلان‘ کے ساتھ پیش ہوں۔
ملک بھر میں شدید شارٹ فال کے پیش نظر حکومت نے منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد توانائی کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کا اعلان کیا۔
اجلاس میں طے کیے گئے اقدامات کے تحت سرکاری عہدیداروں کے غیر ملکی دوروں میں تیزی سے کمی، سرکاری ملازمین کے لیے ایندھن کے کوٹے میں 40 فیصد کمی اور سرکاری ملازمین کے لیے ہفتہ کی چھٹی بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
وزیر اعظم نے دفاتر کی جانب سے جمعہ کے لیے گھر سے کام کرنے کی پالیسی متعارف کروائے جانے کی خوبیوں اور خامیوں کا پتا لگانے کے لیے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی۔
ایک روز قبل توانائی کے تحفظ کے پیش نظر رات ساڑھے 8 بجے بازاروں کو بند کرنے کی تجویز بھی نئی تشکیل شدہ قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کے اجلاس کے دوران زیر بحث آئی۔
بعد ازاں وزیر بجلی خرم دستگیر خان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعظم نے زیر غور اقدام پر چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے تعاون طلب کیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ صوبے توانائی کے تحفظ کے اقدامات بشمول مارکیٹوں کی جلد بندش کے بارے میں اپنی مشاورت کے بعد وفاق کو آگاہ کریں گے، ہم نے زیادہ سے زیادہ تعاون طلب کیا ہے اور انہوں نے ہر ممکن حد تک مکمل تعاون کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت چیک کے ذریعے تنخواہ وصول کرنے والے تمام صارفین کو قسطوں پر 5 کلوواٹ کے سولر پیکج کی فراہمی پر غور کر رہی ہے۔