سپریم کورٹ کا فاٹا میں انضمام سے متعلق آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جمہوریت آئین کا بنیادی جز ہے
سپریم کورٹ نے قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق پچیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے 25 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے آئین میں درج وفاقی اکائیوں کی حثیت تبدیل نہ کرنے کا سوال اٹھایا گیا ہے، کیس میں اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم پر کیا اختیارات اور حدود متعین ہیں؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کس حد تک آئین میں ترامیم کر سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی علاقے کے انضمام سے وہاں کے رہائشیوں کے حقوق سلب ہوں تو وفاقی اکائیوں کا سوال اٹھ سکتا ہے۔
چید جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فاٹا انضمام سے قبائلی علاقوں کے رہائشیوں کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی متاثر ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پچیسویں آئینی ترمیم کے بعد بڑا مسئلہ ہی فاٹا کے نمائندوں کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کا تھا، فاٹا کے نمائندوں نے پچیسویں آئینی ترمیم کی حمایت کی تھی۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آئین کے تحت ایگزیکٹو آرڈر سے قبائلی علاقوں کو سیز کیا جا سکتا ہے، فاٹا کے انضمام سے قبل جرگے سے مشاورت بھی کی گئی تھی۔
بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ فاٹا کے انضمام سے اصل مسئلہ کیا ہے؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فاٹا والے کہہ چکے ان کی تہذیب خیبرپختونخوا سے مختلف ہے، فاٹا والوں کا مؤقف آ چکا ہے کہ آئین نے ان کو الگ حیثیت کا جو تحفظ دیا وہ ترمیم کے ذریعے واپس لے لیا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ نے آئین کے تحت دیے گئے اختیارات واپس لیتے وقت فاٹا کی عوام سے رائے لی تھی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کی دفعہ 257 میں درج ہے کہ اگر کشمیر آزاد ریاست کے طور پر رہنا چاہے تو کشمیریوں کی رائے لی جائے۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کشمیر کا مسئلہ اور بیک گراؤنڈ بالکل مختلف ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جمہوریت آئین کا بنیادی جز ہے، پچیسویں آئینی ترمیم کا مقصد قبائلی علاقوں میں جمہوریت لانا بتایا گیا۔
دورانِ سماعت خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا پارلیمنٹ کی ترمیم کو کالعدم قرار دینا اختیارات سے تجاوز ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ان تمام سوالوں کے جوابات پر تفصیلی دلائل سنیں گے، کیس کو ماہ رمضان کے بعد لارجر بنچ میں سنا جائے گا۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت رمضان کے بعد تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ درخواستوں کو سابق فاٹا کی ملک برادری کے متعدد افراد بالخصوص ملک انور اللہ خان نے اپنے وکیل وسیم سجاد کے ذریعے دائر کیا تھا۔
درخواست گزاروں کی شکایت یہ تھی کہ فاٹا کے عوام 25 ویں آئینی ترمیم کی بنیاد پر انضمام کے اقدام پر عدم اعتماد اور غم و غصے کا شکار ہے جس کی وجہ فاٹا کے عوام سے قائداعظم محمد علی جناح کا ایک وعدہ ہے جس کی وجہ سے انہوں نے رضاکارانہ طور پر پاکستان کا حصہ بننے پر اتفاق کیا تھا اور اس کے علاوہ ترمیم لانے سے قبل ان سے مشورہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی جرگہ یا رائے شماری آئین کے آرٹیکل 247 (6) کے تحت کرائی گئی تھی۔
جس پر وفاقی اور خیبر پختونخوا کی جانب سے سپریم کورٹ سے ایک اپیل میں استدعا کی گئی تھی کہ یہ درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کے تحت دائر نہیں کی جاسکتیں لہذا ان کو فوراً مسترد کردیا جانا چاہیے۔