امریکی صدر جو بائیڈن کا چین کے خطے سنکیانگ میں جبری مشقت پر تشویش کا اظہار
قانون سازوں کی جانب سے ایوان نمائندگان اور سینیٹ ورژنز پر اتفاق کرنے کے بعد اس ماہ کانگریس نے یہ بل منظور کیا تھا
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کے خطے سنکیانگ میں جبری مشقت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس علاقے سے درآمدات پر پابندی عائد کرنے سے متعلق بل پر دستخط کر دیے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اس بل کی منظوری نے چین کو مزید ناراض کیا ہے اور اس نے بل کی مذمت کی ہے۔
یہ بل ایغور اور مسلم اقلیت کے خلاف بیجنگ کے سلوک سے متعلق ایغور فورس لیبر پروینشن ایکٹ کے مطابق بیجنگ کے ساتھ امریکا کی حکمت عملی کا حصہ ہے، چین کے اس عمل کو واشنگٹن نے نسل کشی قرار دیا ہے۔
قانون سازوں کی جانب سے ایوان نمائندگان اور سینیٹ ورژنز پر اتفاق کرنے کے بعد اس ماہ کانگریس نے یہ بل منظور کیا تھا۔
قانون سازی کا ایک مقصد اس مفروضے کی تردید کرنا ہے کہ سنکیانگ میں سب ٹھیک ہے، جہاں بیجنگ نے ایغور اور دیگر مسلمانوں کے لیے حراستی کیمپ بنائے ہیں اور ان سے جبری مشقت کروائی جارہی ہے۔
نفاذ کی کارروائی کے لیے کچھ سامان جیسے کپاس، ٹماٹر اور سولر پینل کی بناوٹ میں استعمال ہونے والے پولی سلیکون کو ’زیادہ ترجیح‘ دی گئی ہے۔
چین نے سنکیانگ میں بدسلوکی کی تردید کی ہے جہاں بڑی تعداد میں کپاس پیدا ہوتی ہے اور یہاں سولر پینل کے لیے بڑی تعداد میں سازو سامان فراہم کیا جاتا ہے۔
واشنگٹن میں موجود بیجنگ کی سفارت خانے نے کہا کہ ’یہ ایک حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے سنکیانگ میں انسانی حقوق کے حالات پر بدنیتی پر مبنی الزامات لگاتا ہے‘۔
لیو پینجیو کا کہنا تھا کہ ’یہ بین الاقوامی قواعد، تعلقات کی خلاف ورزی اور چین کے اندروانی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے، چین اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کرتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ چین حالات میں پیش رفت کی روشنی میں مزید جواب دے گا، لیکن انہوں نے تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی پر قائم کمیشن کے وائس چیئرمین امریکی ایغور نوری ترکیل نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ بل کے مؤثر ہونے کا انحصار اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی رضامندی پر ہوگا کہ یہ مؤثر ہے، خاص طور پر جب کمپنیاں چھوٹ مانگتی ہیں۔
امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن کی جانب سے قانون کی منظوری پر سنکیانگ میں جاری نسل کشی سمیت دیگر تناظر میں امریکا کے جبری مشقت کے خلاف عزم کی نشاندہی ہوتی ہے۔
انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’محکمہ خارجہ نے عزم کیا ہے کہ وہ کانفرنس اور انٹر ایجنسی شراکت داروں کے ساتھ مل کر سنکیانگ میں جبری مشقت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بین الاقوامی کارروائی کو مضبوط بنائیں گے‘۔
بل تیار کرنے والوں میں سے ایک ڈیموکریٹک سینیٹر جیف مرکلے کی جانب سے پیش کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’نسل کشی اور غلامانہ مزدوری کے خلاف ایک واضح پیغام بھیجنا ضروری ہے‘۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اب ہم یقینی بنا سکتے ہیں کہ امریکی صارفین اور کاروبار چین کی ہولناک انسانی حقوق کے خلاف ورزی میں نادانستہ طور پر شامل ہوئے بغیر خریداری کر سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے دور کے آخری ایام میں سنکیانگ سے ٹماٹر اور کپاس کی مصنوعات پر پابندی عائد کردی تھی۔
امریکی کسٹم اور سرحدی تحفظ کے ادارے نے تخمینہ لگایا ہے کہ گزشتہ سال چین سے 9 ارب ڈالر کی کپاس اور ایک کروڑ ڈالر کے ٹماٹر درآمد کیے گئے۔